Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Esa Tha Mera Karachi - ایسا تھا میرا کراچی

Esa Tha Mera Karachi - ایسا تھا میرا کراچی
-32 %
Esa Tha Mera Karachi - ایسا تھا میرا کراچی
Rs.950
Rs.1,400

مصنف محمد سعید جاوید نے کراچی کے بارے میں  کتاب تصنیف کی ہے’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘انہوں نے قیام پاکستان کے بعد کا کراچی ہماری آنکھوں کے سامنے رکھا ہے ۔آج کے نوجوان جب اس کتاب کو پڑھیں گے تو یقیناً وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے کہ کیا پاکستان کا معاشی مرکز کبھی ایسا بھی تھا ؟

ایک فلم بیک وقت 18یا 20سینما گھروں میں نمائش پذیرہوتی تھی ۔سینما کی ٹکٹیں بہت سستی ہوا کرتی تھیں۔چند سینما گھروں میں ٹکٹیں بلیک ہوتی تھیں اور یہ کام مخصوص برادری کے لوگ کرتے تھے باقی سینمائوں میں فلم بین قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹیں لیتے تھے۔محمد سعید جاوید نے ایک فلم سٹوڈیو کا ذکر کیا ہے جس کا نام تھا ایسٹرن سٹوڈیو ۔یہاں سے کچھ فلمیں بنائی گئیں جو خاصی کامیاب ثابت ہوئیں ۔ بعد میں لاہور فلم نگری بن گیا اور کراچی کے فنکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد نے لاہور کا رخ کیا ۔یہاں بہت سے اسٹوڈیوز بن گئے تھے ۔کراچی سے جو فنکار لاہور آئے ان میں محمد علی ،وحید مراد، لہری، نرالا اور کئی دوسرے شامل ہیں ۔ان تمام فنکاروں کی لاہور میں بہت پذیرائی کی گئی ۔کمال اور نیر سلطانہ بھی لاہور آگئے ۔ان تمام فنکاروں کی زیادہ تر فلمیں سپر ہٹ ہوئیں ،لاہور میں اعلیٰ درجے کی اُردو فلمیں بنائی گئیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مالدار طبقوں نے سینما گھر تو بہت بنائے لیکن فلم اسٹوڈیو بنانے کی طرف کم ہی توجہ دی ۔اس کے علاوہ محمد سعید جاوید نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا۔بھولو برادران کراچی میں ہی غیر ملکی پہلوانوں سے مقابلے کرتے تھے۔یہ پانچوں بھائی اپنے زمانے کے نامی گرامی پہلوان تھے۔ بھولو پہلوان رستم زماں تھے جو غیر ملکی پہلوان بھولو پہلوان کو للکارتا تھا ۔اسے پہلے بھولو کے چھوٹے بھائیوں سے مقابلہ کرنا ہوتا تھا ۔بھولو برادران غیر ملکی پہلوانوں کو چِت کر دیتے تھے ۔لیکن محمد سعید جاوید کے بقول بعد میں پتا چلا کہ یہ مقابلے ملی بھگت کے تحت کرائے جاتے تھے ۔بعد میں لوگوں کی ان مقابلوں میں دلچسپی کم ہو گئی تو بھولو برادران کراچی سے لاہور منتقل ہو گئے ۔

اُس زمانے میں بزرگوں کا بڑااحترام کیا جاتا تھا اور وہ نوجوانوں کو تلقین کرتے کہ صراط مستقیم پر چلیں، گھروں کا ماحول بہت شاندار ہوتا تھا ۔مختلف مذاہب کی شادیاں کیسے ہوتی تھی اس کا بھی مکمل احوال بیان کیا گیا ۔مزار قائد کی تعمیر کیسے ہوئی اور اس کے علاوہ دیگر عمارتوں کا ذکر ملتا ہے ۔خواتین کیسا لباس پہنتی تھیں، اس بارے میں بھی خاصی معلومات ملتی ہیں ۔ان معلومات کے ساتھ نادر تصاویر کے اضافے نے گویا کتاب کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔پھر ایوب خان کے مارشل لاء کا ذکر بھی ملتا ہے اور1965ء میں جس طرح مادرِ ملت فاطمہ جناحؒ کو دھاندلی سے ہرایا گیا ،مصنف نے اس کا بھی محاکمہ کیا ہے ۔1965ء کی جنگ میں کراچی کے عوام نے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا خاص طور پر ایوب خان کی تقریر نے جس طرح عوام کے دلوں کو گرمایا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔

Book Attributes
Pages 416

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good
Tags: karachi