Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Kaghzi Hay Perhun - کاغذی ہے پیرہن

Kaghzi Hay Perhun - کاغذی ہے پیرہن
Kaghzi Hay Perhun - کاغذی ہے پیرہن
-29 %
Kaghzi Hay Perhun - کاغذی ہے پیرہن
Kaghzi Hay Perhun - کاغذی ہے پیرہن
Kaghzi Hay Perhun - کاغذی ہے پیرہن
Rs.850
Rs.1,200

  عصمت چغتائی کے افسانوں کو غور اور توجہ سے دیکھیں تو ان تحریروں میں کہیں کہیں ان کی جھلک بھی نظر آتی۔ مگر ان کے افسانوں کو آپ بیتی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا مشاہدہ بہت تیز تھا۔ زندگی کے نامعلوم کتنے چھوٹے چھوٹے واقعات اور نامعلوم کتنے چھوٹے بڑے کرداروں کو انہوں نے افسانوں میں ڈھالا ہے۔ عصمت نے اپنے فلم ساز شوہر شاہد لطیف کی فلموں کے لیے بارہ کہانیاں لکھی تھیں۔ جن میں سے پانچ فلمیں انہوں نے خود بنائیں۔ ان کی سر گزشت’کاغذی ہے پیرہن‘ کے نام سے منظرعام پر آئی۔ 24 اکتوبر 1991ء کو بمبئی میں عصمت چغتائی کا انتقال ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کیا گیا۔ یہ ان کا آخری حرفِ بغاوت تھا جس کے اظہار میں وہ قطعاً نہ گھبرائیں۔

’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ اگرچہ معروف ادیبہ عصمت چغتائی کی یہ خودنوشت نا تمام رہ گئی اور انہیں اسے مرتب کرنے اور اس کی کانٹ چھانٹ کا بھی موقع نہ ملا۔ یہ نامکمل سوانح دہلی سے مشہور جریدہ ’’آج کل‘‘ میں مارچ 1979ء سے مئی1980ء تک 14قسطوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ’’غبارکارواں‘‘ (خودنوشت) کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے جو نومبر 1970ء میں ’’آج کل‘‘ میں ہی شائع ہوا تھا۔ اقساط میں لکھی گئی آپ بیتی جیسے جیسے صفحہ قرطاس پر آتی گئی ’’آج کل‘‘ میں شائع ہوتی رہی۔ مصنفہ کی خواہش اور ارادے کے باوجود یہ سوانحی حالات نامکمل رہ گئے۔ امید کرتے ہیں کہ دُنیائے ادب میں یہ سوانح نامکمل ہونے کے باوجود مقبولیت کا درجہ پائے گی۔

---------------

سچ بات یہ ہے کہ ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ عصمت چغتائی کی ’’یادوں کی بارات‘‘ ہے۔ وہ کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنی یادداشت اور خاندان کے لوگوں کی زبانی سنی سنائی باتوں کو جیسے جیسے انھیں یاد آتا جائے گا، جیسا ان کا جی چاہے گا قلم بند کرتی جائیں گی اور انھوں نے یہی کیا۔ نہ تسلسل کی پروا کی نہ اسے ناول بنانے کی اور یہ بھی ان کے حق میں اچھا ہی ہوا۔ دراصل اس کتاب کاپورا مواد خود نوشت ہی کے لیے مناسب ہے۔ اسے ناول بتائے جائیں تو ناول تو بنتا نہیں اور خودنوشت بھی ہاتھ سے نکل جاتی۔ عصمت ہماری بہت مقبول، بہت مشہور، ایک جغادری مصنفہ ہیں۔ لیکن ان کی صحیح قدر آج بھی پہچانی نہیں جاتی۔ دقیانوسی ادیبوں کا ایک بڑا حلقہ ہے جو آج بھی انھیں محض ’’لحاف‘‘ اور ’’تل‘‘ کی مصنفہ کے طور پرجانتا ہے۔ وہ ان کی بے باکی اور بغاوت سے خوش نہیں ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اُردو تنقید نے ان پر وہ توجہ نہیں کی جس توجہ کی وہ مستحق تھیں۔ انھیں ایک بھی ایسا معتبر نقّاد نہیں ملا جو انھیں سمجھ اور سمجھا سکے اور ان کے فن کی بلندیوں کا احاطہ کر سکے۔ میرا خیال ہے کہ ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ کی کتابی صورت میں اشاعت سے عصمت کی شخصیت میں ایک نئی دلچسپی کا آغاز ہو گا اور اگر اس کا مطالعہ صحیح ڈھنگ سے کیا گیا تو ان کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو جائے گا کیوںکہ ان صفحات سے عصمت کا جو کردار ابھرتا ہے وہ اپنے پیروں پر آپ کھڑی ہونے والی، جدید تعلیم یافتہ عورت کا کردار ہے جو مردانہ برتری کے تعصّبات، عورت کی طرف مذہبی تنگ نظری کی زائیدہ افترا پردازیوں، دقیانوسیت لکیر کی فقیری، رسم و رواج کی غلامی، جہالت، غربت او رتوہمات کی ماری ہوئی ہماری دیمک زدہ زندگی کے کسی ایک پہلو سے بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
وارث علوی

Book Attributes
Pages 334

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good