Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Rodar Paryagh Ka Adam Khor Cheta Kamaw Kay Adam Khor Aur Mundar Ka Sher - ردر پریاگ کا آدم خور، کماؤں کے آدم خور اور مندر کا شیر

Rodar Paryagh Ka Adam Khor Cheta Kamaw Kay Adam Khor Aur Mundar Ka Sher - ردر پریاگ کا آدم خور، کماؤں کے آدم خور اور مندر کا شیر
-35 %
Rodar Paryagh Ka Adam Khor Cheta Kamaw Kay Adam Khor Aur Mundar Ka Sher - ردر پریاگ کا آدم خور، کماؤں کے آدم خور اور مندر کا شیر
Rs.1,300
Rs.1,990
درپریاگ کا آدم خور 1948، کماؤں کے آدم خور 1944 اور مندر کا شیر 1954 میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھیں۔ کوربٹ کے سحر انگیز انداز تحریر کے سبب ان کتابوں کے قارئین کی تعداد دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں میں پہنچ گئی۔ پہلی کتاب کی اشاعت 1944 ءمیں ہوئی تھی۔ اور آج 76 برس بعد بھی دنیا کی مختلف زبانوں میں کوربٹ کی تمام کتابیں شائع ہورہی ہیں۔

ایڈورڈ جیمز کوربٹ (پیدائش 25 جولائی 1875ءنینی تال، انڈیا، وفات 19 اپریل 1955ءنیئری، کینیا) ایک برطانوی شکاری اور فطرت پسند تھے جومتحدہ ہندوستان میں آدم خور شیروں اور چیتوں کو ہلاک کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔

جم کوربٹ کو برطانوی ہندوستانی فوج میں کرنل کا عہدہ دیا گیا تھا اور انہوں نے بنگال اور شمال مغربی ریلوے کے لیے بھی کام کیا۔ تاہم انہیں متعدد بار صوبجات متحدہ (اب یہ اترپردیش اور اترکھنڈ کی ریاستیں ہیں) کی حکومت نے گڑھوال اور کماو

¿ں کے علاقے میں موجود آدم خور شیروں اور چیتوں کی ہلاکت کے لیے بلایا تھا۔ چونکہ ہندوستانیوں کو بندوق رکھنے کی اجازت نہ تھی اس لیے وہ خود ایسے آدم خور جانوروں کو نہیں مار سکتے تھے۔ جم کوربٹ نے بہت سارے ایسے آدم خور ہلاک کیے جو کسی اور کے ہاتھوں نہ مارے جا سکے تھے۔ 1907ء سے 1938ء کے دوران میں جم کوربٹ نے چمپاوت کی آدم خور شیرنی، ردرپریاگ کا آدم خور چیتا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں اور پانار کا آدم خور چیتا ہلاک کیے۔ ان جانوروں نے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک کیے تھے۔ ان جانوروں کی کامیاب ہلاکت سے جم کوربٹ کو کماؤں کے علاقے میں بے پناہ شہرت اور عزت ملی۔ بہت سارے لوگ انہیں سادھو کہتے تھے۔
جم کوربٹ کو جنگلی حیات کی تصاویر بنانے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے کماؤں کے آدم خور، جنگل کہانی اور اپنے تجربات اور مشاہدات پر مبنی کئی کتب تحریر کیں۔ ان کتب کو تنقیدی اور کاروباری دونوں حوالوں سے بے حد کامیابی ملی۔ ان کی زندگی اور کتب سے ماخوذ واقعات پر مختلف اداروں نے فلمیں بھی بنائیں۔ جم کوربٹ نے ہندوستان کی جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت پر بہت زور دیا۔ 1957ء میں ان کے اعزاز میں بھارت میں کماؤں کے علاقے میں 1936ء میں قائم کئے گئے ہیلے نیشنل پارک کو جم کوربٹ نیشنل پارک کا نام دے دیا گیا جو کہ ہندوستان کا قدیم ترین نیشنل پارک بھی ہے۔

Excerpts:
رکی کیش سے چلنے کے بعد آپ لچھمن جھولا پہنچیں گے جہاں سے یاترا سڑک ایک جھولا نما پل کے ذریعے دریائے گنگا کے دائیں کنارے سے بائیں جانب ہو جاتی ہے۔ یہاں سرخ بندروں سے باخبر رہیں جو پل پر ڈیرہ جمائے رکھتے ہیں۔ یہ بندر ہردوار کے اپاہجوں سے زیادہ تنک مزاج اور لالچی ہیں۔ اگر آپ ان کے لیے مٹھائی یا بھنے ہوئے چنے لانا بھول گئے ہیں تو یہ آپ کا پل پر سے گزرنا دو بھر کر دیں گے۔

---
باقی ماندہ لاش سے چالیس گز دور ناریل کا ایک بے برگ درخت تھا جس کے ایک دو شاخے میں گھاس کا ایک بڑا سا گٹھا پڑا تھا۔ یہ دو شاخہ اور گھاس کا گٹھا زمین سے کوئی چار فٹ بلند ہوں گے۔ میں نے گھاس کے اس گٹھے میں چھپ کر بیٹھے کا فیصلہ کر لیا۔

لاش کے ساتھ ہی ایک جگہ راستہ ندی کی سمت جاتا تھا۔ اس راستے پر آدم خور کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ یہ نشان اس چیتے کے پنجوں کے نشانات سے مشابہت رکھتے تھے جس نے دو رات پہلے بنگلے تک میرا تعاقب کیا تھا۔ یہ نشان ایک بڑے مگر بوڑھے چیتے کے تھے۔ اس کے پچھلے بائیں پنجے میں بڑا نقص تھا۔ چار برس پہلے یہیں اسے گولی لگی تھی۔

---
کمرے میں بارہ یا چودہ ہر عمر کے مرد، عورتیں اور بچے موجود تھے۔ اس تھوڑی سی تلخی کے بعد جب ماحول ذرا بہتر ہوا تو مرد جلدی دروازہ نہ کھولنے کے سلسلے میں ہم سے معانی مانگنے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے طویل عرصے سے آدم خور کی دہشت نے ان پر اس طرح غلبہ پا رکھا تھا کہ ان کی ہمت سلب ہو چکی تھی۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ آدم خور کون سا روپ دھار لے۔ وہ رات کے وقت ہر آواز پر شک کرتے تھے۔ ان کے اس خوف سے ہم پوری طرح متفق تھے۔ جب سے ایبٹ سن نے چٹان پر سے پھسل کر لیمپ کا شیشہ توڑ لیا تھا اور بتی بجھ گئی تھی۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم میں سے ایک یا دونوں صحیح سلامت گاوں تک نہ پہنچ سکیں گے۔

---
اسپتال میں کئی ماہ گزارنے پر وہ بے حد کمزور ہوگیا تھا۔ جب میں (کوربٹ) نے اسے اٹھا کر دوبارہ کرسی پر بٹھا دیا تو اس نے کہا:
”میں آپ کی بہن سے باتیں کررہا تھا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں ایک گھڑوالی ہوں تو انھوں نے مجھے آپ کا نام بتایا۔ جب آپ نے آدم خور کو ہلاک کیا تھا، اس زمانے میں، میں ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔ چونکہ ہمارا گاؤں ردرپریاگ سے بہت دور تھا لہٰذا میں وہاں پیدل نہ پہنچ سکتا تھا۔ میرے باپ کی صحت بھی اتنی اچھی نہ تھی کہ مجھے کندھوں پر اٹھا کر وہاں تک لے جاتا۔ لہٰذا مجھے اپنے گھر پر ہی ٹھہرنا پڑا۔ جب میرا باپ واپس آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے آدم خور کو دیکھا تھا اور اس صاحب کو بھی جس نے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس نے اس دن تقسیم ہونے والی مٹھائی کا ذکر بھی کیا اور اپنے حصے کی مٹھائی میرے لیے لے آیا تھا۔ صاحب، اب میں انتہائی خوشی کے عالم میں گھر جاؤں گا اور اپنے باپ کو بتاؤں گا کہ میں بھی اس صاحب سے ملا ہوں اور اگر ردر پریاگ میں ہر سال آدم خور کی موت کی خوشی میں منعقد ہونے والے میلے پر مجھے کوئی اٹھا کر لے گیا تو میں وہاں بھی تمام لوگوں کو بتاؤں گا کہ میں آپ سے ملا تھا اور آپ سے باتیں کی تھیں۔“

Book Attributes
Pages 505

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good