Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Mustafa Zaidi Ki Kahani Khudkhushi Ya Qatal - مصطفی زیدی کی کہانی - خود کشی یا قتل اور شاعری

Mustafa Zaidi Ki Kahani Khudkhushi Ya Qatal - مصطفی زیدی کی کہانی - خود کشی یا قتل اور شاعری
-40 %
Mustafa Zaidi Ki Kahani Khudkhushi Ya Qatal - مصطفی زیدی کی کہانی - خود کشی یا قتل اور شاعری
Rs.600
Rs.1,000
ٹھیک 53 برس قبل، 13, اکتوبر 1970ء کی صبح لاہور کے سابق ڈپٹی کمشنر اور مشہور شاعر: مصطفیٰ زیدی، کے ڈی اے سکیم، کراچی کے ایک چھوٹے سے مکان میں پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ ملحقہ کمرے میں، کراچی اور لاہور کی مشہور ماڈل گرل: شہناز گل، بے ہوش پڑی تھی۔
یہ خودکشی تھی یا قتل؟ گزشتہ 53 سال سے یہ ایک معمہ رہا ہے۔ لگ بھگ بیس برس قبل تک، خود میرے لیے بھی۔ اس کے باوجود کہ میں نے 52 برس قبل 1971ء میں مصطفیٰ زیدی کے فن اور شخصیت پر ایم اے (اردو) کا تحقیقی مقالہ برائے پنجاب یونی ورسٹی اورئینٹل کالج، لاہور لکھا۔ نیز اسی موضوع پر تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے، 1993ء میں میری ایک کتاب : "مصطفیٰ زیدی کی کہانی" بھی سامنے آئی، جس پر مجھے نیشنل بک کونسل آف پاکستان: "وزیراعظم ایوارڈ" سے نوازا گیا۔
یہ خودکشی تھی یا قتل؟
1971ء میں اس حوالے سے قطیعت سے بات کرنا اس لیے مشکل تھا کہ معاملہ عدالت میں تھا۔ جب کہ 1993ء میں کھل کر بات اس لیے نہیں کر سکتا تھا کہ مصطفیٰ زیدی کو موت کی طرف دھکیلنے والے بارسوخ، طاقتور سمگلرز زندہ تھے۔ جو ایک طاقتور بیوروکریٹ کو موت کی وادی کی طرف دھکیل سکتے تھے، تو ایک قلم کار کی ان کے مقابل کیا حیثیت تھی۔ نیز میری ایک مشکل یہ بھی تھی کہ مصطفیٰ زیدی کے چھوٹے بھائی، ارتضیٰ زیدی مرحوم سے نیاز مندانہ تعلق، نومبر 1970ء سے تھا اور سارا کچھ کھل کر نہیں لکھ سکتا تھا۔
اس پراسرار موت سے متعلق حتمی نتیجہ تک پہنچنے کے لیے مصطفیٰ زیدی کا دو بار پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ ایک، بعد از مرگ (13, اکتوبر 1970ء) اور دوسرا، بعد از تدفین ( نومبر، 1970ء) ۔ وہ دونوں رپورٹس میں نے قانونی ماہرین اور ڈاکٹرز کی مدد سے پڑھیں اور راہنمائی کے لیے لندن کے ایک ماہر فزیشیئن سے بھی مدد لی ہے۔ جن افراد نے 13, اکتوبر 1970ء کی صبح، میجسٹریٹ اور پولیس کی موجودگی میں جائے وقوعہ کا بغور جائزہ لیا، ان سے بھی پڑتال کی۔ یہ انتہائی کٹھن کام تھا۔ لیکن سب سے دشوار کام، لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھنے والے مصطفیٰ زیدی کے آخری دنوں کا ریکارڈ کھوجنا تھا اور اس خون میں لتھڑی کہانی کے مرکزی کردار کی نشاندہی تھی۔
حیران کن حقیقت یہ ہے کہ 1954ء تک 24 سالہ مصطفیٰ زیدی نے سات لڑکیوں اور ایک لڑکے (پریم کمار جین) سے ٹوٹ کر محبت کی۔ جن میں سے چار کے لیے خودکشی کر لینے کی نوبت بھی آئی۔ کل ملا کر، جو لڑکیاں، مصطفیٰ زیدی کی زندگی میں آئیں، وہ تھیں: انجم، سروج بھٹناگر، سرلا کپور، سروج بالاسرن، دختر صادق، مس سمتھ، ویرا فان ہل اور شہناز گل۔ نیک نام خاندان کے احترام میں ایک لڑکی کا نام اب بھی ظاہر نہیں کیا ۔
سروج بالا سرن سے بچھڑ کر مصطفیٰ زیدی نے 1951ء اور 1952ء میں دو بار خودکشی کی کوشش کی اور بڑی تگ و دو کے بعد ان کی جان بچا لی گئی۔ تفصیل کتاب میں درج ہے۔
سب سے زیادہ مشکل اس حوالے سے پیش آئی کہ 26, مئی 1972ء کو مقدمۂ قتل اور سمگلنگ کے مقدمہ سے بری ہو جانے کے بعد شہناز گل آخر گئی کہاں؟ 65 برس کی عمر میں اس کا جنازہ کہاں سے اٹھا؟ یہ سب اس کتاب کا حصہ ہے۔ نیز مصطفیٰ زیدی کا اولین شعری مجموعہ:" زنجیریں" (جولائی، 1947ء) مع دیباچہ،از فراق گورکھ پوری اور مصطفیٰ زیدی کے تمام شعری مجموعوں سے منتخب کلام اور 16 نادر و نایاب تصاویر شامل کتاب ہیں، جن میں مصطفیٰ زیدی کی ابتدائی محبوباؤں: سروج بھٹناگر اور سروج بالا سرن کو بھی، بہ عمر بڑھاپا، آپ دیکھ پائیں گے۔
(مرزا حامد بیگ)

Book Attributes
Pages 304

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good