Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Badalti Hui Tareekh - بدلتی ہوئی تاریخ

Badalti Hui Tareekh - بدلتی ہوئی تاریخ
-25 %
Badalti Hui Tareekh - بدلتی ہوئی تاریخ
Rs.300
Rs.400

کتاب | بدلتی ہوئی تاریخ

ڈاکٹر مبارک علی

(صفحہ نمبر 23-19)

لیو ٹالسٹائی اور تاریخ

(جنگ اورامن ناول)

مورخ اور ادیب دونوں اپنے نقطہ نظر سے اپنے عہد کا مطالعہ کرتے ہوئے اور اس کی الجھنوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ایک ناول نگار جب اپنے عہد کی عکاسی کرتا ہے تو اس مقصد کے لئے وہ اپنے کردار خود تخلیق کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے کردار کو کیا کرنا ہے وہ ان کے ذریعے معاشرہ کے ذہین اور وقت کے تقاضے کو اجاگر کرتا ہے اس کے مقابلے میں مورخ جب ماضی کے بارے میں لکھتا ہے جواب وہ حقائق اور دستاویزات کے مواد تک محدود ہوتا ہے اور اس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے تو حقائق کو بدل سکے کے اور تاریخ کردار کو اپنی مرضی سے ڈھال سکے۔ اس لیے ادیب کو اس بات کی آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے تخیل کو استعمال کرکے جس طرح سے چاہے کرداروں کو ڈھال لیں اور ان کی روح کے تہہ تک پہنچ کر ان کے جذبات ظاہر کر سکے۔مورخ کی مجبوری ہوتی ہے ہے وہ حقائق کی موجودگی میں تخیل کو استعمال نہیں کر سکتا اس لیے اس کے تاریخی کردار ایک دائرے میں رہتے ہوئے اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب کے کردار میں دلکشی اور جاذبیت ہوتی ہے، وہ زندہ اور احساسات سے بھرپور نظر آتے ہیں، جب کہ وہ تاریخ میں یہ کردار جامد اور ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔

مشہور ناول نگار لیو ٹالسٹائی (1910-1828) نے جنگ اور امن کے عنوان سے جو ناول لکھا ہے اگرچہ اس تاریخی ناول تو نہیں کہا جاسکتا مگر اس ناول میں، اس نے اس صورتحال کو بیان کیا ہے کہ جو نپولین کے روس پر حملے کے وقت تھی ایک معاشرہ زمانہ امن میں سے کس طرح سے تھا اور جب جنگ ہوتی ہے تو یہی معاشرہ اور اس کے افراد کس طرح سے نہیں ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس ناول میں جگہ جگہ ٹالسٹائی تاریخ کے بارے میں اپنے نظریات بیان کرتا ہے۔ اس ناول اور ان نظریات کی بنیاد پر برلن نے ایک مضمون "The Hedgehog and Fox" میں ٹالسٹائی کے نظریہ تاریخ کو بیان کیا ہے۔

ٹالسٹائی کے اپنے زمانے میں تاریخ کے بارے میں نئے نظریات آچکے تھے جن میں ایک اہم نظریہ تھا کہ تاریخ کو تشکیل دینے میں صرف شخصیات اہم رول ادا کرتے ہیں اور ہر شخصیت تاریخ ساز ہوتی ہے، اس لیے تاریخ میں سوائے ان شخصیات کے اور کوئی قابل ذکر نہیں ہوتی ہے ابتدا میں یہ عظیم شخصیتیں بادشاہوں وزرا اور جرنیلوں کی ہوا کرتی ہوئی مگر بعد میں ان میں علماء و مفکرین اور شاعر بھی شامل کر لیا گیا۔ اس نظریے کے برعکس کچھ مؤرخوں نے اٹھارویں صدی میں نو آبادیاتی نظام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل دی کہ دنیا کی تاریخ میں جرمن قوم کا عظیم مقصد ہے اور یہ مقصد آزادی مساوات اور یورپی تہذیب کا غلبہ ہے ٹالسٹائی ان سب تاریخی نظریات کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تاریخ کا دائرہ اس قدر محدود نہیں بلکہ وسیع پھیلا ہوا ہے اور یہ مورخ کا کام ہے کہ وہ تاریخ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے واقعات کو صرف سطحی طور پر نہیں دیکھے بلکہ ان کی گہرائی میں جائے۔ اکثر مورخ صرف سطحی واقعات کو دیکھتے ہیں یہ اس طرح سے ہے کہ جیسے کی درخت کے پتے ہمیں اس کی جڑوں سے زیادہ خوبصورت اور دلکش لگتے ہیں مگر درخت کی زندگی اور بنیاد پتوں میں نہیں بلکہ جڑوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے اگر تاریخی واقعات کی وجوہات کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ تاریخ محض ترتیب وار واقعات کا مجموعہ بن کے رہ جائے گی مگر اس کے ذریعے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جاسکے گا، کیوں کہ تاریخ میں یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آؤن دی ٹریبل، جو کے ایک نیک انسان تھا آخر کیوں ظالم اور خونخوار ہوگیا یا اس طرح یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ فرانسیسی انقلاب کے بعد تحریک اٹھی بالآخر ماسکو تک پہنچے مگر اس عمل میں پورے یورپ میں قتل و غارت گری ہوئی کھیتیاں اُجڑی، مکانات جلائے گئے تجارتی راستے بند ہوگئے ہزارہا لوگ بے گھر ہوئے اور حالات کے تحت مجبور ہوں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر جائیں،اس بحران میں ان عیسائیوں نے کہ جو عدم تشدد اور امن کے حامی سمجھے جاتے تھے انہوں نے اپنے ہم مذہبوں کو قتل کیا آخر یہ سب کیوں ہوا اس کی کیا وجہ ہے لوگ گھر کو آگ لگائی گئی ساتھیوں کو قتل کیا گیا اور تباہی و بربادی پھیلائی گئی ان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نقطہ نظر ہے ان سوالات کا جواب تلاش کرتا ہے کیونکہ تاریخ کو مذہبی اور الہی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خدا نے نیپولین کو قہر الہی کی شکل میں بھیجا اس نے خدا کے منصوبے کی تکمیل کی یہ تاریخ اتنا سادہ اور سہل ہے کہ اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔

تاریخی عمل کو سمجھنے اہم سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں کہ جو لوگوں کو حرکت پر مجبور کرتی ہیں؟ اسکا جواب اکثر مورخ یہ دیتے ہیں کہ تاریخی عمل میں حرکت کی یہ عظیم شخصیت یا نظریہ ہوتی ہے۔ تاریخ میں فرد کے کردار کو بیان کرتے ہوئے دقت پیش آتی ہے کہ آخر اگر مورخوں کا تعلق کس قوم سے ہوتا ہے وہ ایک ہی باتوں کو اپنی پسندیدہ شخصیت سے منسوب کر دیتے ہیں، جیسے فرانسیسی مورخ کے لیے نپولین تاریخ ساز شخصیت تھا، تو روسی مورخ کے لیے الیگزینڈر جرمنی کا مورخ اپنی کسی شخصیت کو چن لے گا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی قوم کے مورخ واقعات کو علیحدہ علیحدہ نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔مثلاً ٹير (Thiers) نپولین کو ذہین اور بلند و بالا شخصیت کے طور پر دیکھتا ہے مگر دوسرا مورخ جو جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے ایک دھوکے باز اور فریبی تھا۔ مورخ ان متضاد بیان کی وجہ سے اس قوت کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہیں کہ جو قوموں کو متحرک رکھتی ہیں اور یوں تاریخ اہم سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتی ہے۔

ٹالسٹائی اس بحث سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ تاریخ ایک محدود علم ہے یہ سیاسی معاشی اور سماجی پہلو کو تو بیان کرتی ہے مگر انسان کی روحانی اور باطنی زندگی اس کی گرفت سے باہر رہتی ہے اس طرح تاریخ انسان کی زندگی کی بہت سے ہی مختصر حصہ کو اپنے دائرہ کار لاتی ہے۔

‏ٹالسٹائی تاریخ میں عظیم افراد اور ان کے کردار کی نفی کرتا ہے۔ اس لئے ہے کہ تاریخ میں وہی لوگ مفید کام سرانجام دیتے ہیں جو تاریخی عمل سے بے خبر ہو کر کچھ کرتے ہیں مگر وہ افراد جو تاریخی تقاضوں سے مجبور ہوکر کچھ کرتے ہیں ان کے کام لاحاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی فرد کا یہ دعوی کے انسانی فطرت کو سمجھتا ہے اور منصوبہ بندی کے ذریعے انسانوں کو اپنے قابو میں لا سکتا ہے، دیکھا یہ گیا ہے ایسا شخص خود ہی بدنصیبی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال نپولین کی ہے، جس نے یہ تاثر دیا کہ وہ سب کچھ سمجھتا ہے اور اس میں اتنی ذہنی صلاحیت ہے کہ وہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہےاور تاریخی عمل سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ انہیں بخوبی حل کر سکتا ہے لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ آخر میں نپولین قابل رحم شخصیت بن گیا اور حالات نے جو ایک عظیم المیہ پیدا کیا، اس کا سب سے بڑا المیہ وہ خود ہوگیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ وہ افراد جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تاریخ ساز ہیں اور تاریخی عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ایسے دو نہ صرف کھوکھلے ہوتے ہیں بلکہ خود فریبی کا شکار بھی ہوتے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے بے مقصدیت پیدا کر کے حقیقت سے دور رہتے ہیں۔

اسی لئے عظیم افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یہ معمولی اور ناواقف لوگ ہوتے ہیں جو ساری ذمہ داریاں کو سنبھال لینے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر خود اپنی بے وقتی کو تسلیم نہیں کرتے بڑا آدمی فرد اس جانور کی طرح ہوتا ہے کہ جسے ذبح کرنے کے لئے قربانی کے لئے تیار کرکے فربہ کیا جاتا ہے اس کے گلے میں جو گھنٹی ہوتی ہے وہ اس کے بجنے سے وہ سمجھتا ہے کہ پورا ریوڑ اس کی آواز پر حرکت کرتا ہے اور وہ ان کا لیڈر ہوتا ہے مگر اس کا اصل کردار رہنمائی اور لیڈری کا نہیں ہوتا، بلکہ قربانی کا ہوتا ہے، مگر یہ عظیم افراد اس راز کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتے اور آخر میں قربان گاہ تک پہنچ کر خود کو مجبور پاتا ہیں۔

ٹالسٹائی کے نزدیک انسان کی شخصیت بڑی پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے اور یہ بڑی مشکل ہے کہ انسان اس کی شخصیت کو کسی قانونی ضابطے کے تحت لایا جاسکے، یا اس کے نقط نظریہ کے تحت بیان کیا جاسکے۔

ٹالسٹائی نے تاریخ کی جس کم مائیگی کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں حقیقت ہے مگر بیسویں صدی میں تاریخ نے اپنے دائرہ کار وسیع کیا اور اس کی کوشش ہے کہ وہ انسان کے کردار اس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت اس کے جذبات و احساسات کو بھی واقعات کے حوالے سے دیکھے۔ اس میں تاریخ ایک دوسرے سماجی علوم کی مدد لے رہی ہے ان کی مدد سے افراد معاشرہ کو نئے انداز میں دیکھ رہی ہے اسی لئے اب تاریخ محض سیاسی واقعات کا مجموعہ نہیں رہی بلکہ اس میں سماجی و ثقافتی اور نفسیاتی پہلو بھی شامل ہوگئے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس نئی تاریخ سے انسانی ذہن اور انسانی عمل کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ٹالسٹائی نے کو سوالات اٹھائے ہیں تاریخ ان کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہے وہ کون سے حالات ہیں کہ لوگ پرامن شہری کی بجائے پر تشدد ہوجاتے ہیں؟ کن حالات میں نسلی, لسانی اور مذہبی ثقافت ابھرتی ہے؟ افراد اور لوگوں کے مفادات کبھی ان کو محب وطن بنا دیتی ہیں، تو کبھی وہ بالکل بے حس ہو جاتے ہیں جب سے قوموں میں جمہوری روایات کے تحت سیاسی و سماجی شعور آیا ہے اس کے ساتھ ہی ان کے کرداروں میں تبدیلی آئی ہے اور تاریخی عمل میں ان کی شرکت بڑھ گئی ہے اور اسی کے ساتھ عظیم افراد کی قوت بھی گھاٹ گئی ہے۔

تاریخ پر ٹالسٹائی کے ان خیالات کی اہمیت ہے کہ وہ ایک ادیب بھی ہے اور اس کی قوت متخیلہ اس قدر گہری ہے کہ وہ انسانی کرداروں میں داخل ہوکر ان کے احساسات اور جذبات کو جانچ لیتی ہے۔ اسی لیے وہ ادب اور تاریخ کو جب ملا کر خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اس میں ایک نئی ترواٹ ہوتی ہے۔ اس کے ہاں بھی بہت سے سوالات بغیر جواب کے ره جاتے ہیں مگر یہ ضروری ہے کہ قاری خود بھی اپنے ذہن کو استعمال کر کے ان سوالات کا جواب ڈھونڈے تا کہ سچ کی تلاش میں وہ بھی برابر کا شریک ہو۔۔

Book Attributes
Pages 199

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good