Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Faqeer Basti Main Tha - فقیر بستی میں تھا

Faqeer Basti Main Tha - فقیر بستی میں تھا
-35 %
Faqeer Basti Main Tha - فقیر بستی میں تھا
Rs.650
Rs.1,000

1880ء میں شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد نے شاعروں اور ادیبوں کے قصے لکھ کر انہیں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ دلائی۔ اب تقریباً ایک سو چالیس برس بعد معروف ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق نے اپنے معجز اثر قلم سے آزاد کی داستان لکھ کر گویا ان کے عہد کو ہمارے لیے ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ بظاہر فکشن کے اسلوب میں لکھی گئی یہ تحقیقی کاوش عہدِآزاد کی الف لیلیٰ ہے۔ یہ محمد حسین آزاد کی ہی داستانِ حیات نہیں بلکہ کئی بلند مرتبہ شاعروں اور شہروں کا احوال بھی ہے۔ مصنف اور محقق، جن کا اصلاً یہ یونیورسٹی کے زمانے کا مقالہ ہے، برسوں کی عرق ریزی کے بعد مزید نکھر کر موجودہ صورت میں سامنے آیا ہے۔یہ کتاب نما مقالہ (یا بصورت دیگر) جہاں آزاد کی بابت چند نئے حقائق سامنے لاتا ہے، مثلاً ڈاکٹر لائٹنر کا ان سے عناد،آ زاد کے وسط ایشیا کے دورے کے اصل وجوہ اور ان کے جذب و دیوانگی کا بھید و کیفیات وغیرہ۔ وہیں پر یہ تحریر میرؔ، غالبؔ، ذوق اور دیگر شعرا کے خصائل اور کمالات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ شروع کے ابواب میں دہلی کے اجڑنے بسنے کا احوال انتہائی دلنشیں پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ لکھنؤ، علی گڑھ، لدھیانہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے لاہور کی داستان، دراز تر بھی ہے اور لذیذ بھی۔ ایران و افغانستان کا تذکرہ بھی ذکرِ آ زاد کے ضمن میں برمحل ہے۔ آزاؔد اِس کتاب کے مرکزی موضوع ہیں۔ آزاؔد کیسے اس شہر میں آئے، بسے، علمی تدریسی تصنیفی سرگرمیوں کا بیان تو ہے ہی... لاہور شہر کے اندرون بیرون بڑھنے پھیلنے کے حوالے سے بھی مصنف کی معلومات کافی ہیں۔ درحقیقت اپنے موضوع سے مصنف کی شیفتگی پرانی اور گہری، ایک عمر پر محیط ہے اور ایک لحاظ سے اس کی اپنی سوانح عمری پر روشنی ڈالتی ہے۔ آ زاد کے جنازے اور تدفین کا احوال بھی خاصے کی چیز ہے۔ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ جیسے عظیم ناول کے خالق نے ’’فقیر بستی میں تھا‘‘ کی صورت ہمیں حیاتِ آزاد پر ایک بے مثل کتاب سے نوازا ہے۔ کتاب کے ابواب اور ذیلی ابواب کے نام بیشتر میرؔ بےدماغ کے مصرعوں سے مستعار ہیں جو لطف مطالعہ کو دوچند کر دیتے ہیں۔ حقیقت تو حقیقت اور اس پر علی اکبر ناطق کا افسانوی انداز... اسد اللہ خان قیامت ہے۔ میری عاجزانہ رائے میں اُردو زبان میں ایسا اسلوب زندہ ادیبوں میں شاید صرف تارڑ صاحب کا ہے لیکن ناطق نے نہ صرف اس کو نئی رفعتوں سے ہمکنار کرایا ہے بلکہ اس میں ہزاروں وولٹ کی بجلی اضافی بھر دی ہے۔ بظاہر یہ ایک حتمی بیان (Sweeping Statement) لگےگا لیکن میرے خیال میں ناطق جیسی زوردار اور مؤثر نثر لکھنے والا کسی اور زبان میں ہو تو ہو کم از کم اُردو میں نہیں ہے۔

Book Attributes
Pages 288

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good