ایک دفعہ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ ناول کو پڑھنا شروع کیا تو آخری صفحے تک پڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ جیسے کوئی آنکھوں دیکھا قصہ تھا جس کی سچائی نے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ علی اکبر کی تحریر پڑھتے ہوئے آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فہمیدہ ریاض)..
یہ ایک شان دار اور بے مثال خودنوشت ہے جس میں کھرا سچ ہے، ایک ایسا سچ جس
کی لپیٹ میں علی اکبر ناطق کے آباؤ اجداد، اُس کی اپنی ذات اور زمانہ بھی
آتا ہے۔ اس کی نثر پنجاب کی دھرتی کی طرح زرخیز اور پُرمایہ ہے۔ اس
داستانِ حیات میں فکشن اور کہانی جیسی دل فریب دل چسپی ہے۔ یہ خودنوشت
رنگین قصّوں ک..
میں نے ایک عرصہ اقبال اکادمی میں کام کیا۔ اقبال کے حوالے سے محققین اور
ناقدین کا کم و بیش تمام کام میرے سامنے ہے ۔ اُس کو دیکھتے ہوئے مَیں یہ
بات یقین کے ساتھ کہنے کی ہمت کرتا ہوں کہ پچھلے پچاس سال میں اقبال کے فن و
فکر کے متعلق ایسی جامع اور مدلل کتاب نہیں آئی۔ شعرِ اقبال کی جمالیات
کو جیس..
علی اکبر ناطق کے تخلیق وفور کے سرکش، سر پٹکتے، اُچھلتے، چھینٹیں اُڑاتے دریا نے ’’کماری والا‘‘ کی تخلیق کے بعد ایک پُرسکون، لامتناہی، گہرے، بھید بھرے سمندر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس ناول نے اسے اُردو ادب کے ان چند اعلیٰ ادیبوں میں شامل کر دیا ہے جو مذکورہ لطیف مقامِ کمال تک جاتی راہ کے قافلے کے مساف..
1880ء میں شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد نے شاعروں اور ادیبوں کے قصے لکھ کر انہیں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ دلائی۔ اب تقریباً ایک سو چالیس برس بعد معروف ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق نے اپنے معجز اثر قلم سے آزاد کی داستان لکھ کر گویا ان کے عہد کو ہمارے لیے ایک بار پھر زندہ کر دیا ہ..
اس سمارٹ سے مجموعے میں 13 افسانے شامل ہیں۔ یہاں فرداً فرداً افسانوں کا تجزیہ یا جائزہ لینا مشکل ہے، ماسوائے اس کے کہ مصنف کے مشاہدے کی صورتِ حال کیا ہے اور اس میں بیان کرنے کی طاقت اور صلاحیت کس حد تک ہے۔ علی اکبر ناطق کو جہاں زبان پر خاصا عبور حاصل ہے وہاں ان کا طرزِ بیان بھی عام فہم اور دِلکش ہے ا..
یہ ’’قائم دین‘‘ ہے۔ افسانوں کی کتاب ہے اور 2012ء میں آکسفرڈ اِسے اُردو میں چھاپ چکا ہے۔ قارئین آپ سب جانتے ہیں ’’قائم دین‘‘ کتاب میں افسانے ایک دُنیا سے اپنی دِل فریبی کو منوا چکے ہیں اور میری ذات کی سادگی اِس میں خوب لوگوں نے دیکھ لی ہے۔ سچ پوچھیے تو مَیں وہی کچھ ہوں جو اِن افسانوں میں ہوں۔ سیدھا..
ایک دفعہ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ ناول کو پڑھنا شروع کیا تو آخری صفحے تک پڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ جیسے کوئی آنکھوں دیکھا قصہ تھا جس کی سچائی نے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ علی اکبر کی تحریر پڑھتے ہوئے آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فہمیدہ ریاض)..