Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Darhi Wala - داڑھی والا

Darhi Wala - داڑھی والا
Darhi Wala - داڑھی والا
Darhi Wala - داڑھی والا
-24 %
Darhi Wala - داڑھی والا
Darhi Wala - داڑھی والا
Darhi Wala - داڑھی والا
Darhi Wala - داڑھی والا
  • Writer: Husnain Jamal
  • Category: Urdu Adab 
  • Pages: 368
  • Stock: In Stock
  • Model: STP-2402
  • ISBN: 978-969-662-351-9
Rs.950
Rs.1,250

تحریریں جو آپ کی سوچ کو نیازاویہ دیں گی اور زندگی کو نیا ڈھنگ-

میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک-

"وہ ادھر، اس گلی کے آخری کونے سے ایک گاڑی نمودار ہوئی تھی۔ وہ گاڑی ایک مہربان چہرہ چلا رہا تھا۔ وہ میرے باپ کا دوست تھا۔ اس نے مجھے پلاسٹک کی ایک گیند تحفے میں دی۔ اس گیند کے اندر نامعلوم کیا چیز بھری تھی۔ اسے جتنا زور سے زمین پہ مارا جاتا وہ اتنی ہی تیزی سے واپس آتی اور اندر موجود لیکوئیڈ میں ستارے جھلملانے لگتے۔ وہ گیند میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی۔ وہ ٹھپا کھا کے اس تیزی سے نکلتی کہ اس کے پیچھے آنکھیں دوڑانا مشکل ہو جاتا۔ ایک دفعہ اسے کھینچ کے زمین پر جو مارا تو وہ واپس نہیں آئی۔ کسی چیز کے واپس نہ آنے سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ موت سے میرا دوسرا تعارف اس وقت ہوا جب میں گلابی قمیض اور نیلی پتلون پہن کر سکول جاتا تھا۔ سردیاں آ چکی تھیں۔ موٹی سی ایک جیکٹ پہنے ہوئے میں سکول گیا تھا۔ وہاں کلاس کے بیچ میں آ کر کسی نے بتایا تھا کہ اس کو چھٹی دے دی جائے، اس کے دادا کی وفات ہو چکی ہے۔ وفات؟ اچھلتے کودتے گھر واپس آیا تو صحن میں ایک چارپائی تھی اور اس پہ دادا سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ وہ ہلتے جلتے بھی نہیں تھے اور ان کی آنکھیں بھی بند تھیں اور وہ سو بھی نہیں رہے تھے۔ کہیں کچھ غلط تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ اسے وفات کہتے تھے۔ یہ موت تھی۔ تو میری گیند بھی شاید وفات پا گئی تھی۔ یہ میں نے اس وقت سوچا تھا لیکن تب ہر شخص غمزدہ تھا، میں کسی سے غیر ضروری سوالات پوچھنے میں بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ اس کے بعد میرے باپ کو ایک لمبی سی چادر، جو سفید رنگ کی تھی، سر پہ باندھی گئی۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ اب ان کی جگہ پر خاندان کے سردار ہیں۔ لیکن ان سے بڑی دادا کی ایک بیٹی تھیں۔ انہیں کیوں نہیں باندھی گئی۔ یہ بھی میں اس وقت نہیں پوچھ سکا۔ گیند کی وفات اور مرد کی سرداری اس دن میرے دماغ میں جا کے ٹھپے کھاتے اچھلتے رہے تھے۔ دو تین دن بعد جب دادا زمین میں دفن ہو چکے تھے اور ان کی آرام گاہ سیمنٹ سے پکی کی جا چکی تھی اور ایک پتھر کے ٹکڑے پر ان کا نام لکھوا کر ان کے سرہانے لگایا گیا تو مجھے موت سے مکمل تعارف حاصل ہوا۔ میری گیند مری نہیں تھی۔ اس سوال کا جواب مجھے مل گیا۔ پگڑی کیوں باندھی گئی اس کا جواب بعد میں وقت نے دیا۔"

داڑھی والا سے ایک اقتباس

حسنین جمال

Book Attributes
Pages 368

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good