
- Writer: Rifat Abbas
- Category: Novels
- Pages: 208
- Stock: In Stock
- Model: STP-14866
نامور سرائیکی شاعر، حکایت نگار اور ناول نگار رفعت عباس کا تیسرا ناول "مسخریاں دا میلہ" ان کی تخلیقی بصیرت اور فکری گہرائی کا نیا باب ہے۔ اس سے پہلے وہ "لون دا جیون گھر" اور "نیلیاں سلہاں پچھوں" جیسے ناول لکھ چکے ہیں، لیکن "مسخریاں دا میلہ" ان کے فن کی بلوغت اور فکری وسعت کا ثبوت ہے۔ اس ناول میں رفعت عباس نے دنیا کو ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک دنیا کو چلانے کے لیے کسی دیوتا،سورما،حاکم،سالار،ملا،قاضی،ساہوکار یا دلال کی نہیں بلکہ ایک مسخرے کی ضرورت ہے۔
ناول کا پہلا باب مصنف کے سوانحی حوالوں سے ابھرتا ہے۔، جہاں وہ اپنی یادوں، احساسات اور خاندانی تعلقات کو بڑی سادگی مگر گہرائی سے بیان کرتے ہیں۔خاص طور پر 1965 اور 1971 کی جنگ کا احوال اور تجزیہ۔دوسرا باب بازار حسن کا اچھوتا بیانیہ ہے جس میں اس طرب بزار کا مفہوم ہی بدل دیا گیا ہے۔ اس باب کے آخر میں ملتان شہر ایک ناٹک گھر میں منقلب ہو جاتا ہے۔جہاں شہر سکندر مقدونی کو لگا ہوا اپنا زہر بجھا تیر واپس لیتا ہے اور وہ صحت یاب ہو کر بابل کی بجائے مقدونیہ کو لوٹ جاتا ہے۔جہاں ملتان اپنے قاتل ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنرل ولیم وہش کے لیے معافی کا اعلان کرتا ہے۔تیسرا حصہ کورونا وائرس کے زمانے کا بیانیہ ہے۔چوتھا باب سندھ کے سفر پر مشتمل ایک تاریخی اور اساطیری بیانیہ ہے، جو قاری کو بیرونی منظرنامے سے اندرونی معنویت کی طرف لے جاتا ہے۔جہاں جگدیش کولھی ہے جو نمک کی کیمیا سے تتلیاں،پرندے،جانور اور انسان بناتا ہے۔اس باب میں ملتان سے روانہ ہونے والے مسخرے اپنا میلہ لگاتے ہوئے " شیو " تک پہنچتے اور وہ مسخروں سے مل کر مسخرہ بن جاتا ہے اور "شیو " کی تیسری آنکھ کی نئی معنویت سامنے آتی ہے۔
یہاں سیما پر خار دار تاروں کی باڑ ہے اور نمک کا میدان ہے۔جہاں ایک رات مسخروں کے ناٹک میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ یوں "مسخریاں دا میلہ" صرف ایک داستان نہیں بلکہ وجودی شعور کا سفر ہے جس میں ذات اور کائنات ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں۔
رفعت عباس کے نزدیک مسخرا محض تفریح کا کردار نہیں بلکہ ایک فلسفی، ایک آئینہ دار، اور ایک ایسا وجود ہے جو سچ اور جھوٹ کی پرتوں کوں بدل دیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"میکوں اوڑک ڈس پئی جو ہر جنے کوں ہک مسخرے دی لوڑ ہے۔ ایں دب دروہ تے ترٹ بھج دی مار اتے آئے ہوئے ملتان شہر کوں وی ہک مسخرے دی لوڑ یے۔ سچ اکھیجے تاں ایں جگ جہان کوں وی ہک مسخرے دی لوڑ ہے… میکوں اوڑک سمجھ لگی جو مسخرا ہک شیشے ودھ کم کریندا ہے۔ شیشہ بس نقل لہیندا تے چور کو نپویندا ہے پر مسخرا اصل تئیں پجدا تے چور کوں چھڑوا گھندا ہے۔"
یہ اقتباس ناول کے فکری مرکز کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں "شیشہ" اور "مسخرے" کا تقابل دراصل دو فکری زاویوں کا تصادم ہے۔ شیشہ محض عکس دکھاتا ہے، مگر مسخرا معنی کی نئی تخلیق کرتا ہے۔ اس کے ہاں طنز اور محبت ایک ساتھ چلتے ہیں، اور یہی امتزاج انسانی نجات کی صورت بنتا ہے۔
رفعت عباس کا وژن اس ناول میں انسان دوستی اور امن کی تلاش سے عبارت ہے۔ وہ دنیا کو جنگ،موت اور طاقت کے جنون سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسخرے کا کردار اس لیے اہم ہے کہ وہ طاقت کی بجائے مسخری، حیرت اور محبت سے نظام بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کے بیانیہ میں حیرت،رومان،تشبیہ اور استعارہ اضافی قدریں بن جاتے ہیں۔وہ ان تمام قدروں کوحقیقت تک رسائی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور بیانیے کی نئی سطح کی بات کرتے ہیں۔
۔ ناول نگار لکھتے ہیں:
"اپنی حیرت تے رومان کوں جھلیم جو ایہ ڈوہیں شئیں ڈیکھنڑ، سوچنڑ تے دنیا نال ہنڈنڑ وچ اڑاند ڈیندیاں ہن۔"
(مسخریاں دا میلہ/ صفحہ 175)
"مسخریاں دا میلہ" میں رفعت عباس نے سرائیکی زبان کی قوتِ اظہار کو اپنی انتہا تک پہنچایا ہے۔ ان کی زبان میں شاعری کی لطافت، فلسفے کی گہرائی اور تہہ داری بیک وقت موجود ہے۔ یہ زبان سرائیکی ثقافت کے خمیر سے نکلی ہے مگر انسانی تجربے کی وسعتوں کو چھوتی ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ "مسخریاں دا میلہ" محض ایک ناول نہیں بلکہ رفعت عباس کی فکری رسائی، وجودی سرشاری اور انسان دوست نظریے کا اعلان ہے۔ یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کا اصل جمال عقل یا طاقت میں نہیں بلکہ مسخرے کی مسخری میں پوشیدہ ہے۔
Book Attributes | |
Pages | 208 |