اکیسویں صدی کا آغاز گویا اُردو ناول اور ناول نگاروں کا بھرپور طلوع ہے۔ ان میں ایک اہم اور بڑا نام حفیظ خان کا ہے جو بے پناہ لکھنے والے ہیں۔ اُردو و سرائیکی، ناول، افسانہ اور تقریباً سبھی نثری اصناف میں اپنا سکہ جمانے والے ہمہ جہت مصنف۔ بڑا ادیب وہ نہیں جو ایک آدھ فن پارہ تخلیق کر کے اُسی کے سہارے ..
احمت امیت(Ahmet Umit) کا شمار ترکی کے معروف اور مقبول ترین لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ احمت امیت اپنے ناولوں اور کہانیوں میں پراسراریت اور تجسس کے عنصر کے لیے مشہور ہیں۔ منفرد، تجسس انگیز اور سنسنی خیزکہانیاں لکھتے ہوئے وہ اپنے آبائی وطن کے منفرد سیاسی اور تاریخی پس منظر میں اپنے کرداروں کو تخلیق کرتے اور..
اِس کہانی کا مرکزی کردار ’دلدار شاہ‘ گزشتہ چار دہائیوں سے میرے حافظے میں ایک آسیب کی طرح چمٹا رہا۔ دلدار شاہ کے بزرگوں کو انگریز سرکار نے سب سے بڑی جاگیر غالباً تین ہزار پانچ سو ایکڑ عطا کی تھی۔ غیر مُلکی آقاؤں کے اعتماد اور روحانی گدی کی سرکاری سرپرستی سے خاندان کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا۔
..
ایک دفعہ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ ناول کو پڑھنا شروع کیا تو آخری صفحے تک پڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ جیسے کوئی آنکھوں دیکھا قصہ تھا جس کی سچائی نے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ علی اکبر کی تحریر پڑھتے ہوئے آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فہمیدہ ریاض)..
کمال!کاوش صدیقی کی تحریر پڑھ کے بے ساختہ یہی جملہ منہ سے نکلتا ہے۔ چٹکی لیتے مکالمے گویا ہاتھ باندھے قطار در قطار چلے آ رہے ہیں۔ کہیں نہیں لگتا کہ صورتحال کی مناسبت سے اس سے بہتر جملہ ہوسکتا ہے۔ خیال نادر ، افسانہ طرازی کی فسوں آمیز فضا، کہیں امید ، کہیں آس ، کہیں نراش ، کرداروں کی ساخت ، بنت ایس..
ہر کسے کُو دور ماند از اصلِ خویشباز جوید روزگارِ وصلِ خویش(جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے)رومی کا یہ شعر اُن کی معرکہ آرا مثنوی کے ابتدائی اشعار میں سے ہے۔ یوں رومی کی ساری شاعری اپنی اصل سے وصل کی تمنّا معلوم ہوتی ہے اور اسی تمنّا کی بازگشت ربی سنکربل کے اس ..