



New
-21 %




Main Meri Bivi - میں میری بیوی (دو آپ بیتیاں ایک جلد میں)
- Writer: Fikr Taunsvi
- Category: Biography
- Pages: 435
- Stock: In Stock
- Model: STP-14371
Rs.1,400
Rs.1,780
زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 354 & 355
میں/ میری بیوی.......فکر تونسوی کی آپ بیتیاں، ایک جلد میں ۔ مصنف کی دختر اور فرزند کے اپنے والد پر تحریر کردہ خاکوں اور فکر تونسوی کے لاہور کے مختصر رپورتاژ کے ہمراہ.
فکر تونسوی کی آپ بیتیوں (میں/میری بیوی) سے انتخاب
آخر وہی ہوا جس کا میرے والدین کو خدشہ تھا کہ میں گرتے پڑتے بھی زندہ رہا۔ بلکہ خدشے کے مطابق پانچ برس تک جاپہنچا— انسان کی یہ عجیب ٹریجڈی ہے کہ جن بچوں کی مائیں انھیں پیدا کرکے کوڑے کرکٹ میں پھینک دیتی ہیں وہ ضرور زندہ رہتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ میں سے دانہ دنکا چگ کر کھاتے ہیں، بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ میں نے کئی چوزوں کو اس طرح پورا مرغا بنتے دیکھا ہے، اور اس طرح مرغا بننے کو نوشتہ¿ تقدیر کہتے ہیں۔ (دیکھو لغات فیروزی، نون کی پٹی میں)
اور پھر ایک قصائی چھرے سمیت نمودار ہوتا ہے جو مرغے کو کوڑا کرکٹ سے نجات دلا کر ذبح خانے میں لے جاتا ہے۔ ذبح خانے کو بھی نوشتہ تقدیر کہا جاتا ہے۔
چنانچہ ایک دن میری والدہ نے ٹوٹی ہوئی چارپائی کی ٹوٹی ہوئی اووائن کستے ہوئے والد صاحب کے سامنے اعلان کیا۔ ”میں نے کہا جی ،سنا آپ نے، نارائنی آج پورے پانچ سال کا ہوگیا ہے۔“ اعلان کرتے وقت وہ بالکل کیلنڈر معلوم دے رہے تھے۔ ”اس کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے کہ اسے کس دھڑے پر ڈالنا ہے۔“
یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ دنیا کے ہر ماں باپ کو بچوں کے مستقبل کا خیال کیوں رہتا ہے، حال کی بدحالی کا کیوں نہیں رہتا۔
----
میں چپ چاپ آنسو بہائے جارہا تھا، مگر والد صاحب کو میرے آنسوو¿ں سے زیادہ تختی اور پنسل زیادہ قیمتی لگ رہی تھیں۔ یہ اشیا پیسے سے ملی تھیں، میں مفت میں ملا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے گھر والے مجھ سے پیار نہیں کرتے۔ پیسوں سے کرتے ہیں۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میں پیسوں کے مقابلے پر حقیر شے ہوں۔ آج کل بھی جب کوئی انسان فٹ پاتھ پر زار و قطار روتا ہوا دکھائی دے تو میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اسے اس ڈر سے چپ نہیں کراتے کہ کہیں چند پیسے نہ مانگ لے۔ اُسے گھر لے جائیں تو کھانا نہ کھلانا پڑے۔ گھر کی کوئی چیز اٹھا کر چمپت نہ ہوجائے۔ یہ کوئی انسانوں کو چپ کرانے کا زمانہ ہے— خواہ مخواہ کا خرچہ۔
-----
مگر ماسٹر خدا بخش کا ڈنڈا؟ اس نے سہمے ہوئے عوام میں جرا¿تِ رندانہ پیدا کردی تھی اور مجھے اسکول میں پہلا سبق یہ ملا کہ ہر جمہوریت کی پشت پر ایک ڈنڈا ضرور ہونا چاہیے ورنہ کھجوروں اور غنڈوں کی آڑ میں کئی نسلیں، کئی تہذیبیں فنا ہوجاتی ہیں، اور تاریخ میں ان کے زوال کا صرف خالی خالی ذکر باقی رہ جاتا ہے اور اس دن جب مدرسے سے لوٹا تو ایک الجھن سی اندر ہی اندر میری جان کھائے جارہی تھی۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا: ”باپو، ایک بات بتاو۔“
”پوچھو۔“
”ماسٹر جی نے رادھو اور اللہ داد کو مرغا بننے کی سزا دی، لیکن مرغا بنانے کے بعد ماسٹر جی نے رادھو کو پانچ ڈنڈے رسید کیے، اللہ داد کو ایک بھی رسید نہیں کیا۔ کیوں؟“
میرے سوال پر والد صاحب چونکے، مسکرائے، بولے: ”بیٹا نمبردار کی حویلی میں تین کتے، چار بھینسیں اور پانچ گائیں بندھی ہوئی ہیں، جبکہ رادھو کی بیوہ ماں کے آنگن میں صرف ایک بکری بندھی رہتی ہے۔“
-----
”میں اس کی نیت کو جانتا ہوں۔“
”مگر آپ تو کہتے تھے نیت، دل کے اندر ہوتی ہے۔ اندر کی بات آپ نے کیسے معلوم کرلی؟“ اس مرتبہ تنگ آکر والد صاحب نے مجھے ایک طمانچہ جڑ دیا: ”ابے الو! جا، اب میرا بھیجا مت کھا۔ جب تو بڑا ہوجائے گا تجھے خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ نیت اندر تو ہوتی ہے، مگر وہ بھینس اور بکری بن کر باہر بھی آجاتی ہے۔“
میرے دل میں ماسٹر جی کا اخلاق ایک دم مشکوک ہوگیا۔
اور آج جبکہ میں واقعی بڑا ہوگیا ہوں بدقسمتی سے یہ جان گیا ہوں کہ باہر کا حادثہ اندر کی نیت میںد اخل ہوکر کیا کیا گل کھلاتا ہے، مگر پھر بھی کسی سے بات کرتے وقت میں میرے منہ سے یہ فقرہ بے اختیار نکل جاتا ہے: ”آپ کے الفاظ اور نیت، دونوں کے سائز میں ذرا فرق ہے۔“ اور یہ کہتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچتا کہ مجھے دنیا داری سے کام لینا چاہیے۔
Book Attributes | |
Pages | 435 |