Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Namak Ka Jewan Ghar - نمک کا جیون گھر

Namak Ka Jewan Ghar - نمک کا جیون گھر
Namak Ka Jewan Ghar - نمک کا جیون گھر
-23 %
Namak Ka Jewan Ghar - نمک کا جیون گھر
Namak Ka Jewan Ghar - نمک کا جیون گھر
Namak Ka Jewan Ghar - نمک کا جیون گھر
Rs.1,150
Rs.1,500

رفعت عباس کا ناول نمک کا جیون گھر
یہ ایک گھمیبر اور منفرد ناول ہے۔ یہ کسی ایک انسان اور اسکے معاشرے کی کہانی نہیں ہے۔ یہ اُس وقت سے لے کر جب سے انسان نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے اور اب انسان جس مقام پر ہے یہ تب تک کی کہانی ہے۔ انسان کے زمین پر بسنے کی داستان سے لیکر اکیسویں صدی تک کے سفر میں انسان سے ایسی کیا غلطی ہوئی کہ خدا، جنگ اور موت انسان کے لئے لازم و ملزوم ٹھہر گئے۔ ان کی موجودگی نے شہروں اور انکے لوگوں کو کیسے متاثر کیا۔ اگر کسی معاشرے میں جنگ اور موت نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسا ہوگا؟ کیا انکے بنا انسان اور معاشرے کا وجود ممکن بھی ہے؟ کیا مذہب اور سیاست کی بجائے آرٹ سے کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے؟ آرٹ کب تک آرٹ رہتا ہے اور کب مذہب کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس ناول میں ایسے ہی بڑے بڑے اہم نکتوں کو اٹھایا ہے کہ کیسے انسان نے آرٹ کا استعمال کر کے مذہب بنا لیا جبکہ آرٹ کو فقط آرٹ رہنا چاہئے۔


ناول کی سیر کرنے سے پہلے کچھ بیان ناول نگار کا بھی ضروری ہے۔ رفعت عباس کون ہے، یہ کونسی تہذیب کا نمائندہ ہے۔ زبان بھی تو تہذیب ہے اور ناول نگار سرائیکی زبان کا مشہور شاعر ہے، جسکی شاعری میں استعماریت اور عام آدمی کے استحصال کے خلاف مزاحمت ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ ایک شاعر، شاعری کی خیام گاہ سے نکل کر فکشن کے میدان میں آن کھڑا ہوا اور اس انداز سے آیا کہ اپنا جھنڈا گاڑ گیا۔ شائد اسی لئے کہ ناول اکیسویں صدی میں آرٹ کی وہ اہم شکل ہے جس میں بات ڈھب سے کہی جائے تو اپنا اثر رکھتی ہے اور سوچ کے نئے دریچے بھی وا کرتی ہے۔یہ منور آکاش کا کیا ہوا اردو ترجمہ ہے، جسے سرائیکی سے منتقل کرتے ہوئے انہیں ناول نگار رفعت عباس کی بھرپور مدد حاصل رہی ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ترجمہ ہے جسے ناول نگار کی تائید حاصل رہی اور اُسکا اس ترجمے پر اطمینان ہے۔
کسی بھی ناول نگار کے لئے اپنے معاشرے اور اسکے معاملات کو فکشن میں پیش کرنا سہل نہ سہی مگر مشکل بھی نہیں ہے۔ وہ فکشن نگار جو اپنے ناول میں تخیل کی آنچ سے ایک نئی دنیا آباد کرے جو اسکی موجودہ دنیا جس میں وہ رہ رہا ہے اس سے مختلف ہو یقیناً ایک اہم واقعہ ہے۔ رفعت عباس نے یہی کارنامہ کیا ہے۔ ایک ایسے شہر کی تخلیق جو چار ہزار قبل مسیح میں سانس لیتا ہے، اس شہر کا نام “لونڑی” ہے جو لفظ لُون یعنی نمک سے نکلا ہے۔ نمک مقامیت کو پیش کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ ناٹک کھیلتے ہیں، سوانگ رچاتے ہیں۔ شیشے بناتے ہیں، یہاں بادل گاڑیاں ہیں۔ یہاں کسی انسان کو موت نہیں آتی۔ یہاں کے شہریوں کے پاس نہ خدا ہے اور نہ ہی جنگی آلات۔ ناٹک گھر اس شہر کی پارلیمنٹ ہے۔ وہ اپنے اور اس شہر کے تمام فیصلے ناٹک کے ذریعے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسی ناٹک گھر میں موت کیساتھ کھیل کھیلا اور اسے شکست دی۔ ناول کی کہانی “لونڑکا” کی گمشدگی سے شروع ہوتی ہے۔ وہ لونڑی شہر کا ایک عام سا شہری ہے اور ایک دن اچانک کھو جاتا ہے۔
لونڑکا کی گمشدگی کے واقعے سے لونڑی شہر کی تاریخ آگے کی جانب بڑھتی ہے۔ لونڑی کے واسی لونڑکا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ناول نگار نے دو متوازی جہان آباد کئے ہیں۔ ایک لونڑی شہر ہے اور اسکے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام ادوار ساتھ چلتے ہیں۔ لونڑی کے شہری اپنے کتاب گھر میں رامائن، گیتا اور مہابھارت لا کر پڑھتے ہیں اور اپنے شہر سے باہر کی دنیا کو سمجھتے ہیں۔ اس دور میں وہ یہ جانتے ہیں کہ ایک شاعر کی کتاب سے کرشن وشنو کا آٹھواں اوتار اور بھارت کا نیا بھگوان بن گیا تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ “ہم اُس شاعری سے گریزاں ہیں جو دیوتاؤں کو جنم دے۔” لونڑکا کی گمشدگی کے بعد ایک شیشے کے کاریگر نے مجسمے میں لونڑکا کا نقش ابھارا تھا مگر لونڑی واسیوں نے نہ ہی اس مجسمے کی پوجا کی اور نہ لونڑکا کو دیوتا سمجھا کیونکہ وہ آرٹ کو محض آرٹ سمجھنے کا فن سیکھ چکے تھے۔
ناول کا سب سے دلچسپ موڑ تب آتا ہے جب دسویں دَری یعنی دسویں باب میں تاریخ 712 سن عیسوی تک پہنچتی ہے اور محمد بن قاسم کو لونڑی شہر بارے معلوم پڑتا ہے۔ محمد بن قاسم کا ایک فرستادہ حکم نامہ لیکر لونڑی داخل ہوتا ہے۔ سارنگ جو عام شہری ہے اسے کہتا ہے “اس شہر میں جنگ کے ہتھیار نہیں بنتے۔ اس شہر میں حاکم ہے، سپاہ ہے نہ مذہب ہے۔ ہماری طرف سے اسلام کے لئے نیک خواہشات۔ اللہ اور اس کے رسول کا احترام۔” فرستادہ سارنگ سے جواب میں کہتا ہے: “اسلام تمہیں تین میں سے ایک بات کا انتخاب دیتا ہے۔ اسلام قبول کرو، جزیہ دو یا پھر جنگ کے لئے تیار رہو۔” لونڑی والے اسکی یہ تمام شرائط ٹھکرا دیتے ہیں اور اپنی کلا سے اپنے شہر کو عربوں کی نظروں سے غائب کر دیتے ہیں۔
وقت کا دھارا یونہی بہتا رہتا ہے اور بہتے بہتے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے ہوتا ہوا انیسویں صدی تک انگریز ہندوستان تک پہنچتا ہے جہاں وہ سوداگر کے روپ میں خدا، مذہب اور جنگ کی آڑ میں اپنا تسلط ہر شہر پر قائم کرتے جا رہے تھے۔ سن 1889 ہے اور برطانوی کیپٹین اولیور رابرٹس کو معلوم پڑتا ہے کہ ایک شہر ہے لونڑی وہاں بھی برطانوی راج قائم کیا جائے۔ ریل بچھائی جائے، تجارت کی جائے۔ وہ اپنی شرائط لیکر لونڑی حاضر ہوتے ہیں۔ کیپٹن کو معلوم پڑتا ہے کہ یہ لوگ جنگ نہیں لڑتے مگر برطانوی تسلط بھی اہم ہے۔ لونڑی کا ایک شہری جب کپٹن کو ناٹک کے ذریعے ناٹک گھر میں جنگ لڑنے کی دعوت دیتا ہے تو کیپٹن حیران رہ جاتا ہے۔ برطانوی فوج اسے مضحکہ خیز قرار دیتی ہے مگر وہ برطانوی پارلیمان سے رائے شماری کے ذریعے لونڑی کے ناٹک گھر میں ناٹک کے ذریعے جنگ لڑنے کا فرمان لے آتا ہے۔ ناول نگار نے حقیقی واقعات کو افسانے کا رنگ دیا ہے اور افسانے کو حقیقت میں ڈھال دیا ہے۔ ناٹک تین روز پر مشتمل ہوگا۔ تیسری رات فیصلہ کُن ہوگی۔
“بمبئی آرمی کے بینڈ کی دُھنیں تیز ہوگئی تھیں۔ لفٹیننٹ جارج گریوس کے ساتھ ملڑی اور سول افسران اور بمبئی شہر کے مدعوین پنڈال میں پہنچ گئے تھے۔ بمبئی کے سمندر اور آسمان کی گواہی میں انسانی تقدیر سے ابھرنے والی اس تقریب میں ایک نیا خیال ابھر رہا تھا: “جنگ صرف ناٹک ہی میں لڑی جا سکتی ہے۔” ایک نئی تصویر چمک رہی تھی: “جنگ میں مرنے والا ہمیشہ کے لئے مر جاتا ہے لیکن ناٹک میں مرنے والا دوبارہ جی اُٹھتا ہے۔ وہ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ محبوبہ سے بارِدگر مل سکتا ہے۔ کبوتروں کو دانہ ڈال سکتا ہے۔ کشتی کو روغن کر سکتا ہے۔"

عمر سلیم

Book Attributes
Pages 224

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good