Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Sarkar Ki Rahguzar Say - سرکار کی راہ گزر سے

Sarkar Ki Rahguzar Say - سرکار کی راہ گزر سے
Sarkar Ki Rahguzar Say - سرکار کی راہ گزر سے
-27 %
Sarkar Ki Rahguzar Say - سرکار کی راہ گزر سے
Sarkar Ki Rahguzar Say - سرکار کی راہ گزر سے
Sarkar Ki Rahguzar Say - سرکار کی راہ گزر سے

ظفر محمود، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1976ء میں ڈی ایم جی، حال (PAS) گروپ سے سرکاری نوکری کا آغاز۔ ملازمت کے دوران1984ء میں مانچسٹر یونی ورسٹی، 1987ء میں آرتھر ڈی لٹل انسٹی ٹیوٹ،بوسٹن، 1989ء میں سٹیٹ ڈِپارٹمنٹ، واشنگٹن اور 2007ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم۔ 1992ء سے 1995ء تک استنبول میں کونسل جنرل کی ذمے داری، نوکری کے آخری دور میں چھے مختلف وفاقی وزارتوں ، ٹیکسٹائل، کامرس، پٹرولیم، کابینہ، انڈسٹری اور پانی و بجلی میں فیڈرل سیکرٹری۔ رِٹائرمنٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن میں چیئرمین کی تعیناتی اور واپڈا کی سربراہی۔ کالا باغ ڈیم سے متعلق حقیقتیںاجاگر کرنے کے لیے انگریزی میں "Sifting Facts from Fiction" کے عنوان سے مختلف اخباری کالموں، بعد کو اُردو میں ’’حقیقت کیا، فسانہ کیا‘‘ کتاب کی اشاعت پر حکومتِ وقت کے سیاسی بوجھ میں اضافے کے پیشِ نظر عہدے سے ازخود مستعفی۔

ظفر محمود کے ہم عصر جانتے ہیں کہ ملازمت کے دوران وہ نہ کبھی عہدوں کے اسیر رہے، نہ ان کے بے داغ کردار پر کسی نے انگشت نمائی کی ۔ کئی بار انھیں او ایس ڈی بنایا گیا۔ بنیادی طور پر وہ ایک قلم کار ہیں۔ اِسی وقفے کے دوران قلم سے اُن کا رشتہ قائم رہا اور اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’دائروں کے درمیاں‘‘ بھی شائع ہوا۔ ظفر صاحب کی تحریروں کا مرکز دھرتی سے جُڑے وہ لوگ ہیں جن کے گرد بےشمار نفسی و سماجی مسائل، اعتقاد و اعتماد اور ارادت مندی کی سعادت نے دائرے کھینچ دیے ہیں۔ عدم برداشت کی دیواریں اُونچی ہوتی جا رہی ہیں۔ لکھنے والے کا قلم اِرد گرد کے ماحول سے بےنیاز نہیں رہ سکتا۔ اُن کے بہ قول شاید اُن کی تحریریں بھی بڑھتے ہوئے معاشی انحطاط سے متاثر ہوں۔

زیرِ نظر کتاب میں، قارئین کو وہ چشم کشا تجربے اور ناقابلِ فراموش مشاہدے نظر آئیں گے جن سے ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے، اقتدار کی غلام گردشوں میں اُن کا واسطہ رہا۔ بیوروکریٹ کی زندگی ایک حیرت کدے کاسفر ہوتا ہے۔ ظفرمحمود کے ساتھ اِس سفر میں قاری کی شرکت اُس کی سوچ میں نئے دریچے وا کرتے ہوئے، معاشرے کے اُن نہاں خانوں کا پتا دیتی ہے جو دیکھتی آنکھوں کو نظر نہیں آتے۔‘‘

Book Attributes
Pages 367

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good
Rs.1,100
Rs.1,500
Tags: politics