Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Khuli Tareekh - کھلی تاریخ

Khuli Tareekh - کھلی تاریخ
Khuli Tareekh - کھلی تاریخ
-28 %
Khuli Tareekh - کھلی تاریخ
Khuli Tareekh - کھلی تاریخ
Khuli Tareekh - کھلی تاریخ
Rs.1,300
Rs.1,800

میں ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستانی اُردو ادب کی مختصر کہانیوں، ناولوں اور شاعری میں جھلکتی پاکستانی تاریخ کی حقیقی و شفاف ترجمانی کے لیے، نوتاریخی طریقہ کار اور تکنیک کو انتہائی تخلیقی اور قابلِ ستائش انداز میں استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں ہماری تاریخ کا ایسا بصیرت انگیز اور غیر جانبدارانہ مطالعہ سامنے آیا ہے جو پاکستان، اس کی عوام اور اس کی شب و روز بدلتی سیاست کے ابعاد کو سمجھنے میں تفہیم کی نئی راہیں کھولے گا۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد


نئی تنقیدی تھیوری کے بڑے مفسرین کے نقطۂ نظر کے بر عکس اس کتاب میں لاشعوری اور غیر شخصی محرکات کو حرفِ آخر نہیں بنایا گیا۔ یہ حنا جمشید کی اپنی مہارت ہے کہ اس نے پاکستان کی تاریخ کی پیچیدہ گرہوں کو کھول کر اس کا فیصلہ قاری کے سپرد کر دیا ہے۔ اس کتاب میں آپ پڑھیں گے کہ نوتاریخیت ادیب کی ذہنی زندگی پر دباؤ ڈالنے والے محرکات، اداروں اور قوتوں کا سراغ لگاتی ہے، جو ایک بھرپور طاقت کی صورت اس کی تحریر پر اثرانداز ہوتے ہیں، مثلاً خاندانی روایات، مذہبی و نیم مذہبی عقائد، ثقافت، رسوم و رواج، حکومتِ وقت کے سخت گیر رویے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ کہ کس طرح یہ تمام قوتیں ایک دوسرے کی طاقت میں اضافہ بھی کرتی جاتی ہیں اور خود کو قطعی غیر مبدل خیال کرتی ہیں، جیسے فقط وہ ہی فطری ہوں اور اس طرح ان کے مدِ مقابل جو بھی کھڑا ہو جائے یا ان کی نشاندہی کرے تو وہ اسے اپنا دشمن تعبیر کرتی ہیں۔

ڈاکٹر انوار احمد


ڈاکٹر حنا جمشید نے اہم مگر مشکل موضوع کا انتخاب کیا ، انھوں نے آزادی اور اس کے بعد کے پاکستانی ادب کا نو تاریخی مطالعہ جس محنت، توجہ اور ذہانت سے کیا ہے، وہ داد طلب ہے۔ ان کا عمومی نقطہ ٔنظر ترقی پسندانہ ہے، جو اِس مطالعے میں بھی جھلکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ترقی پسندی کو ایک جامد نظریہ نہیں سمجھتیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی کلاسیکی مارکسی تصور کی حتمیت پر اصرار نہیں کرتیں جس پر فرینکفرٹ سکول نے خاصی تنقید کی ہے۔ نوتاریخیت میں سماج کا تصور معاشی یا طبقاتی نہیں ہے، لیکن وہ طاقت کے تصورات (جو کئی طرح کے ہیں)کو ضرور اہمیت دیتی ہیں، کیونکہ طاقت جہاں بھی ہوتی ہے وہاں سماج بٹ جاتا ہے کہ ہر طاقت کو اپنا معروض چاہیے۔ سماجی و قومی سانحات، طاقت کے اندھے استعمال ہی کی شکلیں ہیں جنھیں حناجمشید نے اس بسیط مطالعے میں بہ طور خاص اہمیت دی ہے اور ان میں اُردو ادب اور ہماری مقامی تاریخ کے نئے رشتے دریافت کیے ہیں۔ اُمید ہے اہلِ نظر اس کام کو تحسین کی نظر سے دیکھیں گے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر

Book Attributes
Pages 367

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good