رسیدی ٹکٹ امرتا پریتم کی آپ بیتی ہے جس میں انہوں نے ناول کی ہئیت میں اپنی داستان زندگی بیان کی ہے۔ یہ داستان زندگی کہیں ڈائری کی صورت میں ہے اور کہیں ان کی نظموں کی صورت میں۔ ڈائری کے اقتباسات وہ شامل ہیں جن میں انہوں نے اپنے بیرونی ممالک کے قیام کی روداد لکھی ہے۔ اس آپ بیتی کے مطالعے سے امرتا کے زہ..
معروف ادیبہ امرتا پریتم کا تالیف کردہ خوب صورت مجموعہ ’’میرا کمرہ‘‘ جس میں کچھ معروف شاعروں اور ادیبوں کے وہ کمرے ہیں جن میں بیٹھ کر وہ لکھتے پڑھتے تھے۔ گہرے مطالعے کا ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ گھر کا ہر کونا یا کمرہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس میں اس کے مقیم کی شخصیت کو دیکھا جاسکتا ہے، اور اس کے پ..
’’یہ ادیب لوگ بھی تو دھرتی کے خدا ہوتے ہیں، قلم اُٹھایا تو اپنے افسانوں میں جیسا جی میں آیا کسی کی قسمت لکھ ڈالی ۔‘‘
’’کوئی زندگی کا وارث نہیں، سب جگہ لوگ موت کے وارث ہیں۔‘‘
’’آدمی دوستی کرے تو چاند سورج سے جو اور کچھ نہیں تو وقت پر آ تو جاتے ہیں۔ آدمیوں کا کیا بھروسہ۔‘‘
’’جیسے دو آدمی مل کر..
امروز کے لفظوں میں اگر کوئی امرتا کی تمام تخلیقات، نظمیں، کہانیاں، ناول ترتیب وار سامنے رکھ کر پڑھے تو وہ امرتا کی پوری زندگی کو جان سکتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس کی بنیاد پر اس کی سوانح لکھ سکتا ہے اور میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں، اسی لیے میں نے ”رسیدی ٹکٹ“ کے شروع میں لکھا تھا ”جو کچھ پیش آیا وہ ..
امرتا پریتم کا نام ہندو پاکستان کی سرحد کے دونوں جانب یکساں معروف اور مقبول ہے۔ پنجابی شاعری میں تو ان کا مقام کسی ذکر کا محتاج نہیں لیکن نثر کی مختلف اصناف میں بھی ان کی تحریر کچھ کم قیمت نہیں۔ ناول، کہانیاں، خاکے، خودنوشت، انشایئے بھی ان کے شعر کی طرح پنجابی ادب میں گرانقدر اضافہ ہیں۔ یہ تذکرہ ہے ..
تقسیم پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن پنجر کی منفرد بات یہ ہے کہ اس میں تقسیم کو مذہب سے ہٹ کر عورت کی نظر سے دکھایا گیا ہے. ایک نئی نظر سے تقسیم کے دُکھ کو بیان کیا گیا ہے. ایک ایک سطر ایک سانحہ ہے. کردار کے دُکھ اور احساسات کو آپ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں. کہنے کو تو کہانی پارو اور رشید کی ہے مگر کہانی..
امرتا نے سب سے پہلا خط جو میرے نام لکھا، وہ صرف ایک سطر کا تھا۔ وہ مجھے
بمبئی میں موصول ہوا تھا، جب میں شمع اور دہلی کو چھوڑ کر گورودت کے ساتھ
کام کرنے کے لیے وہاں گیا تھا وہ ایک سطر یہ تھی ’’بمبئی اپنے آرٹسٹ کو
خوش آمدید کہتی ہے۔‘‘ اس خط میں امرتا نے مجھے کسی نام سے مخاطب کیا تھا
اور نہ ا..
رسیدی ٹکٹ کا دوسرا حصہ سرخ دھاگے کا رشتہ کا ایک اقتباس ."میں نے اس زندگی میں دو بار محبت کی ہے۔ پہلی ساحر سے، اور دوسری امروز سے۔ ساحر کو میں نے آج سے تقریباً پینتالیس برس پہلے، پریت نگر ضلع امرتسر کے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا۔ میں نے اپنی کتاب ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں اس ملاقات کا ذکر لکھا ہوا ہے کہ اگلے..
رسیدی ٹکٹ امرتا پریتم کی آپ بیتی ہے جس میں انہوں نے ناول کی ہئیت میں اپنی داستان زندگی بیان کی ہے۔ یہ داستان زندگی کہیں ڈائری کی صورت میں ہے اور کہیں ان کی نظموں کی صورت میں۔ ڈائری کے اقتباسات وہ شامل ہیں جن میں انہوں نے اپنے بیرونی ممالک کے قیام کی روداد لکھی ہے۔ اس آپ بیتی کے مطالعے سے امرتا کے زہ..