ہم پر بسا اوقات مغربی دنیا کے ادب کا اتنا رعب چھا یا رہتا ہے کہ ارد گرد کی ادبی کاوشوں پر نظرکم ہی جاتی ہے۔ ہم اس پر بھی غور نہیں کرتے کہ جو تہذیبی او..
یقین
کرنا مشکل ہے کہ یہ 45 سال پہلے لکھی گئی تھی ۔ غیر معمولی طور پر قدیم ،
اور یہ اب بھی جدید دور کا نمائندہ محسوس ہوتی ہے اور مستقبل کی پیشین
گوئیاں کرنے والی کتاب۔ وہ کلاسیک جس نے تیزی سے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی
وجہ سے دنیا کی پریشانیوں کی پیشین گوئیاں کی تھیں —ٹوفلر کا یہ خیال کہ
سما..
صدیوں تک لاہور تجارتی قافلوں، لوٹ مار کرنے والے گروہوں اور دولت و طاقت کے حصول کے لئے نکلنے والےفاتحین کی توجہ کا مرکز رہا۔ دانشور، تاریخ دان اور اس شہر سے گزرنے والے قافلے اس کی آب و تاب طنطنے اور شکوہ و سطوت سے مسحور ہو جاتے۔ مغل دارالحکومت کے طور پر اس کے شباب کے دنوں میں ایک کہاوت اکثر سنائی دیت..
پسِ نو آبادیاتی نظری مباحث نے ہماری توجہ چند ایسے پہلوؤں کی جانب مبذول کروائی ہے جو اس سے قبل اہل علم کی نظروں سے پوشیدہ تھے۔ان میں ایک پہلو مرکزی اہمیت کا حامل تھا جس کے تحت نو آبادیاتی طاقت ( انگریزوں ) نے مغلوب اقوام پر اپنے استبداد کو دوام عطا کرنے کے لیے علم ، تعلیم اور تدریس کو بطور موثّر ذر..
ریاستہائے
متحدہ امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک، مصنف، صحافی۔ ان کی
کتاب 1919ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں شائع ہوئی اور 1923ء میں سوویت
یونین میں روسی زبان میں اس کی اشاعت ہوئی۔ اس کے بعد سوویت یونین میں اس
کے کئی ایڈیشن ہوئے تھے۔ اس کتاب کے روسی زبان میں سب سے پہلے لے کر
..
مصنف نے یہ کتاب 1948 ء میں اس وقت لکھی تھی جب دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے صرف تین برس گزرے تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کی تقریبا تمام اقوام اس جنگ کے تجربے سے براہ راست گزری تھیں۔ ان اقوام کے اکثر قارئین کسی نہ کسی حد تک اس جنگ کے کرداروں اور اس کی تفصیلات سے آگاہ تھے کیونکہ ان کا کوئی نہ کوئی عزیز،..
عظیم مفکر "کارل مارکس" کی شہرہ آفاق تصنیف۔۔۔
داس کیپٹل کا سرمایہ کے عنوان سے ترجمہ۔۔۔مزدور کے شب و روز کی محنت۔۔۔کیفیت۔۔۔کمیت۔۔تبادلہ۔۔۔صنعت وحرفت۔۔۔مشین اور مزدور کے اوقات کار۔۔۔محنت کی سماجی پیمائش اور۔۔اشتراکیت ۔اشتمالیت۔۔ سرمایہ۔اضافی قدر ایسے
مو ضوعات سے بھر پور کتاب جس نے مزدوروں کو باور کرا..
جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ۔ سیلاب کی یہ دل گداز کہانی
کوٹ مٹھن سے شروع ہو کر مسجدِ قرطبہ میں ختم ہوتی ہے۔ کوٹ مٹھن اور مسجد ِ
قرطبہ ، یہ دو استعارے ہیں، سوزومستی اورفنا و بقا کے۔ کہانی جب شروع ہو تو
خبر نہیں ہوتی کہ کس کس موڑ سے گزرے گی، کہاں ختم ہو گی۔ اس کہانی میں بھی
بہت ..
شہروں کے پیچھے دریا ہوتے ہیں کیونکہ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے
۔راولپنڈی کے پیچھے بھی دریائے سواں ہے جس کے ساتھ انسان کا تعلّق لاکھوں
سال پُرانا ہے مگر راولپنڈی کی معلوم تاریخ میں سب سے اہم اس کی تزویراتی
حیثیت ہے ۔ تقریباً بارہ سو سال پہلے جیسلمیر کے حکمران بھاپا راول نے یہاں
فوجی چوکی ق..
طارق اسماعیل احمدائی اپنی کتاب ”سرائیکا لوجی وچ سرائیکی وسیب دے اندر رائج قدیم تھراپی دے طریقیں (صلوۃ نے برے) نے تحقیق کرن دے علاوہ ثقافتی انتھروپولوجی دے ہئے پہلوئیں تے وی کم کیتے ۔ جیندے وچ سنوٹ تے سرائیکی اساطیر شامل ہن ۔ ثقافت دا درست مطالعہ اوندے اندروں کیتا ونج سہکدے۔ طارق صاحب ایہہ گالھ جنگی ..
ہوش ربا و بصیرت افروز معلومات جن سے عوام الناس کی بڑی اکثریت ناواقف ہے- غیر اسرائیلی قبیلہ جو نسلا اسرائیل کی موجودہ آبادی کا تقریبا 80 فیصد جنکہ اصل اسرائیلی محض 20 فیصد ہیں-..
اس عہد میں جب کہ ملک ایک بستی اور دنیا ایک بڑے شہر کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے دریائے چناب کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے شہر چنیوٹ کی کہانی ماضی کے بھنور میں تنکے کی طرح گھوم رہی ہے! ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے کمال ہنر مندی سے اپنے سادپ سلیس اور رواں دواں اندازِ بیان کے ساتھ قاری کو اس گرداب سے نکال کر..
1857کے بعد برطانوی راج نے ہندوستان میں سسکتی اور ڈوبتی جاگیرداری کو اپنے اقتدار کو قائم کرنے کے لیے نہ صرف سہارا دیا بلکہ نئے سرے سے ان کی طاقت کو قائم کیا ، جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مقامی حکمرانوں کا ایک طبقہ پیدا کیا جائے جو برطانوی تسلط کو دوام بخشنے میں مددگار ہو۔ جاگیرداری نظام کے ساتھ یہ طبقات..