آگ
کا دریا ناول ادب سے محبت کرنے والوں اور حساس دل رکھنے والے دوستوں نے
اگر نہیں پڑھا تو کچھ نہیں پڑھا خاص کر ناول کا وہ حصہ جب ناول کا ہیرو
انڈیا اپنی کزنوں سے ملنے جاتا ہے اور دیواروں پر لگے اپلے والی گلیاں جہاں
وہ ایک ٹاٹ کے پردے والے کچے مکان پر دستک دیتا ہے اور اندر سے دلائی
اوڑھے لڑک..
اس ناول میں تقسیمِ ہند کے بعد کے نامساعد اور بدلتے حالات میں انسان کی بے سمتی اور مذہبی عدم رواداری کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ناول کا عنوان فیض احمد فیض کے اس شعر سے مستعار لیا گیا ہے۔کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہء غمِ دل..
"اگلی نسل ویسی نہیں رہی۔” یہ گلہ برسوں سے ہر نئی نسل کو دیکھنے والے کرتے آ رہے ہیں۔ یہ ہی بات اس ناول میں بھی ہے۔ پہلے وہ نسل خود بغاوت کرتی ہے اور جب اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور نئی پیڑھی جنم لیتی ہے اور وہ بھی باغی نکلتی ہے، مگر ان کی بغاوت میں اور پرانی پیڑھی کی بغاوت میں فرق ہوتا ہے، جو ظاہر ہے..